Urdu font shayri

محبت روگ ھے جاناں محبت اب نہیں ھوگی

محبت روگ ھے جاناں محبت اب نہیں ھوگی
محبت اک تما شہ ھے شکایت اب نہیں ھوگی

عمر ساری پوجا تھا حسن کے ان خداوں کو
محبت گر عقیدت ھے عقیدت اب نہیں ھوگی

فسانے بہت ہیں بکتےپرانے کئی زمانےسے
محبت اک روایت ھےتو روایت اب نہیں ھوگی

چُنا تھاحسن دیواروں میں یہ کہہ کربھی اکبرنے
محبت گر بغاوت ہے بغاوت اب نہیں ھوگی 

ٹوٹےجب تیرمرزے کے،پکارا وہ بھی یہ آخر
محبت گر رفاقت یے رفاقت اب نہیں ھوگی

لکھا اک لفظ محبت تھا مجنوں نے مٹا ڈالا
محبت گر عنایت ھے عنایت اب نہیں ھوگی“ا

ُٹھا کر پحول کی پتی نزاکت سے مثل ڈالی“
محبت گر نزاکت ہے نزاکت اب نہیں ھوگی

جلا ساجد جو پروانہ پکارا اس نےبھی آخر
محبت گرعبادت ھے عبادت اب نہیں ھوگی

عجب تسکین ملتی ہے
عجب تسکین ملتی ہے مجھے تیری یاد آنے سے
تیری یاد میں ساجن چند آنسو بہانے سے

سو جاتا ہے دل تیری یادوں کا چوغہ اوڑھ کہ
بڑا چین ملتا ہے مجھے تیرے مسکرا نے سے

میری قسمت میںتُو نہیں ہے جب معلوم ہے مجھکو
تو کیا فایدہ ہے پھر ریت پر گھر بنانے سے

یہ تو برسوں کی رفاقت تھی ساجدمیں بھول نہ پایا
تیری یاد اور آتی ہے تیری یادیں بھولانے سے

محبت کی اسیری سے رہائی مانگتے رہنا

محبت کی اسیری سے رہائی مانگتے رہنا
بہت آساں نہیں ہوتا جدائی مانگتے رہنا

ذرا سا عشق کر لینا،ذرا سی آنکھ بھر لینا
عوض اِس کے مگر ساری خدائی مانگتے رہنا

کبھی محروم ہونٹوں پر دعا کا حرف رکھ دینا
کبھی وحشت میں اس کی نا رسائی مانگتے رہنا

وفاں کے تسلسل سے محبت روٹھ جاتی ہے
کہانی میں ذرا سی بے وفائی مانگتے رہنا

عجب ہے وحشت ِ جاں بھی کہ عادت ہو گئی دل کی
سکوتِ شام ِ غم سے ہم نوائی مانگتے رہنا

کبھی بچے کا ننھے ہاتھ پر تتلی کے پر رکھنا
کبھی پھر اس کے رنگوں سے رہائی مانگتےرہنا

بے نام سے رشتے پہ الزام تو آنا تھا

بے نام سے رشتے پہ الزام تو آنا تھا
خواہش کو میرے دل کی چپ چاپ دبانا تھا
رکھے ھوتےلفافےمیں بند پیارکےافسانے
کیوں دل کے محرم کو میرا حال سنانا تھا
ان پیارکےجذبوں کوسمجھےگا کوئی کیسے
اس آگ کے دریا میں بس ڈوب ھی جانا تھا
بدنام تو ھونا تھا محفل کا تقاضہ تھا
گستاخ نگاھوں کو ایک بار بتانا تھا
نکل آے نہ پھر تاریک انرھیروں سے
محبت کے جذبے کو اس طرح دبانا تھا
پھرشوق سےکر جاتے سمندر کے حوالے
ریت پہ ساحل کی تمھیں گھر ایک بناناتھا
اسےچھوڑکےجانےکاغم مجھ کوبھی تھاساجد
پاس میرے مگر کوئی بھی خاص بہانہ تھا

اُسے نیند کہاں آتی ہے
اُسے نیند کہاں آتی ہے میرا خیال جب آتاہے
جان اُسکی نکل جاتی ہےمیرا خیال جب آتاہے

تنہاجب بھی ہوتی یےخودسےاُلجھتی رہتی ہے
اُسےشرم سی پھرآتی ہے میرا خیال جب آتاہے

محفل میں بھی بیٹھ کر تنہا جو نظر آتی یے
پھروہ کتنا مُسکراتی ہےمیرا خیال جب آتاہے

پوچھتیں ہیںجب اُسے،وہ مَن چلی سی سہیلیاں
باتیں کیا وہ بناتی ہیں میرا خیال جب آتا ہے

مجھے ساجد خبرہےیہ،تنہائی میںوہ بیٹھ کر
خود کو بڑا جلاتی ہے میرا خیال جب آتاہے



پرنیندنہ آئی ہوش آنےکےبعد 
سو گیاجہاں ساراجگانےکےبعد

پرنیندنہ آئی ہوش آنےکےبعد 

وہ جس کی یادسے روشن یےدل مرا
اب ملے گا کیا زمانے کے بعد

یادیں تو زندگی کا سرمایہ ہوتی ہیں
احساس یہ ہوا بچھڑجانے کے بعد

جب ساتھ تھا کسی کی قدر نہ ہوئی
اب یاد کرتے ہیں دور جانے کے بعد

دوستیاں تو ساجد انمول یوتیں ہیں
معلوم یہ ہوا بِک جانے کے بعد

اپنی رسوائی، ترے نام کا چرچا دیکھوں

اپنی رسوائی، ترے نام کا چرچا دیکھوں
اِک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں

نیند آجائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کُھل جائے تو تنہائی کا صحرادیکھوں

شام بھی ہوگئی،دُھن د لاگئیں آنکھیں بھی مری
بُھولنے والے،میں کب تک ترارَستا دیکھوں

ایک اِک کرکے مجھے چھوڑ گئیں سب سکھیاں
آج میں خُود کو تری یاد میں تنہا دیکھوں

کاش صندل سے مری مانگ اُجالے آکر
اتنے غیروں میں وہی ہاتھ ،جو اپنا دیکھوں

تو مرا کُچھ نہیں لگتاہے مگر جانِ حیات!
جانے کیوں تیرے لیے دل کو دھڑکتا دیکھوں!

بند کرکے مِری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے
بُوجھے جانے کا میںہر روز تماشہ دیکھوں

سب ضِدیں اُس کی مِیں پوری کروں ،ہر بات سُنوں
ایک بچے کی طرح سے اُسے ہنستا دیکھوں

مُجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اسی رُت میں مہکتا دیکھوں

پُھول کی طرح مرے جسم کا ہر لب کِھل جائے
پنکھڑی پنکھڑی اُن ہونٹوں کا سایا دیکھوں

میں نے جس لمحے کو پُوجا ہے،اُسے بس اِک بار
اب بن کر تری آنکھوں میں اُترتا دیکھوں

تو مری طرح سے یکتا ہے، مگر میرے حبیب!
میں آتا ہے، کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں

ٹُوٹ جائیں کہ پگھل جائیں مرے کچے گھڑے
تجھ کو میں دیکھوں کہ یہ آگ کا دریا دیکھوں


جس محبت کی تھی تمنا بس وہ سرابوں میں ملی

جس محبت کی تھی تمنا بس وہ سرابوں میں ملی
کچھ حقیقت میں ملی بھی تو صرف وعدوں میں ملی
جس جنوں کی چاہت تھی محبت میں وہ جنون نہ ملا
پل بھر کو ملی تسکین بھی تو خوابوں میں ملی
بہت چاہا تھا کہ میں بھول جاؤں اسکو بھول جاؤں
جو تصویر مجھے خوابوںمیںملی خیالوں میں ملی
جذبہ جھوٹا یےاسکا پرمیں کیسےبھول جاؤں اسے
وہ جو لذت مجھے ذخموں میں ملی شرابوں میں ملی
بہت تلاش کی ساجد الفت کی حقیقت میں نے
ان جزبوں کی صدا قت تو صرف کتابوں میں ملی

بے نام سے رشتے پہ الزام تو آنا تھا

بے نام سے رشتے پہ الزام تو آنا تھا
خواہش کو میرے دل کی چپ چاپ دبانا تھا
رکھے ھوتےلفافےمیں بند پیارکےافسانے
کیوں دل کے محرم کو میرا حال سنانا تھا
ان پیارکےجذبوں کوسمجھےگا کوئی کیسے
اس آگ کے دریا میں بس ڈوب ھی جانا تھا
بدنام تو ھونا تھا محفل کا تقاضہ تھا
گستاخ نگاھوں کو ایک بار بتانا تھا
نکل آے نہ پھر تاریک انرھیروں سے
محبت کے جذبے کو اس طرح دبانا تھا
پھرشوق سےکر جاتے سمندر کے حوالے
ریت پہ ساحل کی تمھیں گھر ایک بناناتھا
اسےچھوڑکےجانےکاغم مجھ کوبھی تھاساجد
پاس میرے مگر کوئی بھی خاص بہانہ تھا

کسی کی یاد کو دل میں کبھی آباد تو کرنا 

کسی کی یاد کو دل میں کبھی آباد تو کرنا 
خواہش ہو ملن کی توکبھی فریاد تو کرنا

فاضلےلاکھ ہوںمیں آجاؤںگاسامنےتیرے
خلوصِ دل سےکبھی بھی تم مجھےیادتو کرنا

عجب تسکین ملےگی یہ وعدہ ہےمیراتم سے
ذکر میراکبھی کسی سے میرے بعد تو کرنا

محبت کیا ہے نادان میں تجھکو دیکھا دوں گا
میںتیرا ہوں یہ کہ کر تم مجھے آزاد تو کرنا

ہارجانابھی محبت میں اصل میںجیت جاناہے
کبھی ساجد خودی اپنی تم برباد تو کرنا 

جلا دیں میں نے تصویریں خط سارے جلا ڈالے

جلا دیں میں نے تصویریں خط سارے جلا ڈالے
لکھے تھے جو دیواروں پہ نام سارے مٹا ڈالے
نادانی کی چاہت نےکوئی تو رنگ دیکھانا تھا
پرانی اُس نے چایت کو نئےکپڑے پہناڈالے
اسے چاہنا جرم میرا ، ہجر اسکا سزا میری
وفا کی اُس نےراہوں پہ کیا کانٹےبچھاڈالے
ملا ہم سےتو وہ ایسےکوئی انجان یوجیسے
پرانی اس نےقبروں پہ نئےکَتبےسجاڈالے
کیوں چپ تھا مدت سےدرد اتناکیوں سہتاتھا
ایک پل میں ہی ساجداب غم سارے سناڈالے

بے نام سے رشتے پہ الزام تو آنا تھا

بے نام سے رشتے پہ الزام تو آنا تھا
خواہش کو میرے دل کی چپ چاپ دبانا تھا
رکھے ھوتےلفافےمیں بند پیارکےافسانے
کیوں دل کے محرم کو میرا حال سنانا تھا
ان پیارکےجذبوں کوسمجھےگا کوئی کیسے
اس آگ کے دریا میں بس ڈوب ھی جانا تھا
بدنام تو ھونا تھا محفل کا تقاضہ تھا
گستاخ نگاھوں کو ایک بار بتانا تھا
نکل آے نہ پھر تاریک انرھیروں سے
محبت کے جذبے کو اس طرح دبانا تھا
پھرشوق سےکر جاتے سمندر کے حوالے
ریت پہ ساحل کی تمھیں گھر ایک بناناتھا
اسےچھوڑکےجانےکاغم مجھ کوبھی تھاساجد
پاس میرے مگر کوئی بھی خاص بہانہ تھا

کمال ضبط کو آزماوں گی

کمال ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی

میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجاؤں گی

سپرد کر کے اسے روشنی کے ہاتھوں*میں*
میں*اپنے گھر کے اندھیروں میں* لوٹ آؤں گی

بدن کے قرب کو وہ بھی نہ سمجھ پائے گا
میں*دل میں* رؤں گی آنکھوں*میں*مسکراؤں گی

وہ کیا گیا کہ رفاقت کے سارے لطف گئے
میں کس سے روٹھ سکوں*گی کسے مناؤں گی

وہ ایک رشتہ بےنام بھی نہیں*لیکن
میں*اب بھی اس کے اشاروں پہ سر جھکاؤں گی

سماعتوں میں گھنے جنگلوں کی سانسیں ہیں
میں*اب بھی تیری آواز سن نہ پاؤں گی

جواز ڈھونڈ رہا تھا نئی محبت کا
وہ کہہ رہا تھا کہ میں*اس کو بھول جاؤں گی

تیرہ چہرہ، تیری آنکھیں، تیرے لب یاد آئے
کیا خزانے مری جاں ، ہجر کی شب یاد آئے

تیرہ چہرہ، تیری آنکھیں، تیرے لب یاد آئے

ایک تو تھا جسے غربت میں پکارا دل نے
ورنہ بچھڑے ہوئے احباب تو سب یاد آئے

ہم نے ماضی کی سخاوت پہ جو پل بھر سوچا
دکھ بھی کیا کیا ہمیں یاروں کے سبب یاد آئے

پھول کھلنے کا جو موسم مرے دل میں اترا
تیرے بخشے ہوئے کچھ زخم عجب یاد آئے

اب تو آنکھوں میں فقط دھول ہے کچھ یادوں کی
ہم اسے یاد بھی آئے تو کب یاد آئے

بھول جانے میں وہ ظالم ہے بھلا کا ماہر
یاد آنے پہ بھی آئے تو غضب یاد آئے

یہ خنک رت یہ نئے سال کا پہلا لمحہ
دل کی خواہش ہے کہ محسن کوئی اب یاد آئے

اک خلش کو حاصلِ عمرِ رواں رہنے دیا

اک خلش کو حاصلِ عمرِ رواں رہنے دیا
جان کر ہم نے انہیں نامہرباں رہنے دیا

کتنی دیواروں کے سائے ہاتھ پھیلاتے رہے
عشق نے لیکن ہمیں بے خانماں رہنے دیا

اپنے اپنے حوصلے، اپنی طلب کی بات ہے
چن لیا ہم نے انہیں سارا جہاں رہنے دیا

یہ بھی کیا جینے میں جینا ہے بغیر ان کے ادیب
شمع گل کر دی گئی باقی دھواں رہنے دیا

دُنیا یہ پیار کی ناکام ہو گئی

دُنیا یہ پیار کی ناکام ہو گئی
زندگی کی بھی آخر شام ہو گئی

بڑا جنون تھا داستانِ عشق میں
مگرہوتےہوتےیہ بھی تمام ہو گئی

بادِ صبا چلی وفا کی تلاش میں
بھٹک گئی صحرامیں ناکام ہو گئی

میری آنکھوں میں گزری رات کی وفا باقی ھے

میری آنکھوں میں گزری رات کی وفا باقی ھے
ابھی تک خاموش محبت کی اک اک صداباقی ھے
گزر گئی یہ بھی رات تیری یاد میں روتے روتے
مگرتو میرا ھے تو میرا ھے یہ دعا باقی ھے
کبھی بن کر زندگی تومیری دل میں بھی آے گا
یہی اک آس ھے اپنے پاس اور کیا باقی ھے
میں مرجاتا اگر دل کے مرنے سے موت آتی
جان ھے کہ نکلتی ہی نہیں اور سزاباقی ھے
اثر میری محبت کا ھو گا اس پہ لازم ساجد
کیوں کہ دل ھے باقی اور دل میں خداباقی ھے

دیکھیں یہ دنیا اک پھول جھڑی ھے

دیکھیں یہ دنیا اک پھول جھڑی ھے
سو چیں یہ دنیا توکانٹوں بھری ھے
مسکاتے ھو چہرے یہ دلکش ادائیں
رانا جی یہ دنیا منافق بڑی ھے
یہ شفقت محبت ہائے میرے مالک
دلوں میں نفرت کی آگ جل رہی ھے
اگر ھو منافق تو سب کچھ تمہارا
یہ دنیا کے مسلئے ڈونٹ وری ھے
یہ آگے یہ پچھیے یہ تیرا یہ میرا
یہ تھالی کا بنگن گھڑی دو گھڑی ھے
لالچی بے ایمان خریدارسارے
یہ سچائی یہ اچھائی کھڑی کی کھڑی ھے
سمجھتے نہیں ھیں یہ ایمان والے
یہ دینا تو ساجد گھڑی دو گھڑی ھے

دل گرفتہ ہی سہی بزم سجالی جائے

دل گرفتہ ہی سہی بزم سجالی جائے..............
یادِ جاناں سے کوئی شام نہ خالی جائے..........

رفتہ رفتہ یہی زنداں میں بدل جاتے ہیں............
اب کسی شہر کی بنیاد نہ ڈالی جائے.............

مصحف رخ ہے کسی کا کہ بیاضِ حافظ.............
ایسے چہرے سے کبھی فال نکالی جائے.........

وہ مروت سے ملا ہے تو جھکادوں گردن............
میرے دشمن کا کوئی وار نہ خالی جائے..........

بے نوا شہر کا سایہ ہے مرے دل پہ فرازؔ.........
کس طرح سے مری آشفتہ خیالی جائے.........ا

اک بار جو کہتے میرے ھو سو بار جان لوٹا دیتا

اک بار جو کہتے میرے ھو سو بار جان لوٹا دیتا

تیری بانہوں کےگھیروں میں لمحوں میں عمربیتادیتا

آ جاتے جو ملنے تم تو تیرا کیا جاتا ظالم

میں وصل کے اک لمحے سےعمرکاہجرچھپادیتا

تجھے آنا تھا نہ آیا میرا دل بہت دکھایا

بہتر تھا اگر مجھے نہ آنےکی وجہ بتا دیتا

اگر ملنا ھوتاتونےمجھے توملنےکی امید پہ

دودن کیامیں انتظارمیں دوصدیاں بھی صدادیتا

آجاتا وہ ملنے ساجد تو دل اسے دعا دیتا

اک بار جرم سنا دیتاپھرچاہےجو سزا دیتا